سنا ہے ایک پاگل امریکی کی کتاب پر جنرل پاشا کے متعلق کافی زبانیں دراز کی جا رہی ہیں۔ میں کتاب کے متعلق تو تبھی کچھ کہوں گا جب اس کا مطالعہ کر لوں گا ہاں جنرل پاشا کے متعلق میں ایک بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آئی ایس آئی کے ڈائرئکٹر جنرلز کی تاریخ میں امریکیوں کو جو شخص سب سے ناپسندیدہ تھا وہ جنرل احمد شجاع پاشا تھے۔ میں بنا حوالہ کے بات نہیں کر رہا بلکہ ایک زندہ جاوید دلیل بھی اپ کو پیش کر رہا ہوں۔
جنرل پاشا 2008 سے لے کر 2012 تک آفس میں موجود رہے، اس چار سالہ عرصے میں آئی ایس آئی کے خلاف جو پراپگینڈہ عالمی اخبارات میں شائع ہوا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ تجربے کے طور پر ٹیلی گراف، گارڈین، نیویارک ٹائمز جیسے عالمی اخبارات کی ویب سائیٹس پر چلے جائیں۔ ان ویب سائیٹس کے سرچ مینو میں " آئی ایس آئی " ٹائپ کریں۔ 2008 سے 2012 کے دوران جو سرچ رزلٹس آپ کو ملیں گے وہ آپ کی آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہوں گے۔ آپ کو لگے گا کہ امریکیوں اور برطانویوں کے نزدیک روئے زمین پر سب سے بڑی برائی آئی ایس آئی ہے۔
بات صرف جنرل پاشا کے چار سالوں پہ ہی بس نہیں ہے نا ہی آئی ایس آئی کے خلاف پزادراڈہ کوئی نئی بات ہے بلکہ روس افغان جنگ کے بعد سے لے کر مسلسل آج تک آئی ایس آئی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹک رہی ہے۔ میں پوسٹ کے آخر میں یہ بھی لکھوں گا گا کہ آئی ایس آئی کے خلاف یہ پراپگینڈہ کن مجبوریوں کے تحت کیا جاتا ہے۔ سرِ دست اتنی سی گزارش ہے کہ جو حضرات ریمنڈ ڈیوس کی ایک کتاب پر جنرل پاشا کے متعلق لغو گوئی کر رہے ہیں، وہ حضرات آئی ایس آئی کے خلاف کیے جانے والے عالمی پراپگینڈہ کے جواب میں بھی کبھی بولتے نظر آئے؟ بالکل بھی نہیں۔ بلکہ جنرل پاشا پہ تنقید کرنے والے وہ حضرات ہیں جو بمبئی حملوں کا الزام بھی ائی ایس آئی پہ ڈال رہے تھے۔ دوسری بات اس انسان کو عالمی سیاست پر بات کرنے کے بجائے محلے میں کدو بیچنے چاہیے جسے یہ سمجھ نہ آئے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک مصنف نہیں تھا نہ ہی صاحبِ کلام تھا کہ کتاب تصنیف کر سکے۔ اسے تو امریکی عدالت بھی مجرم قرار دے چکی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس جتنا عرصہ قید رہا جیل میں تھا، اپنی رہائی سے متعلق جو واقعات وہ لکھ رہا ہے وہ جیل میں اسے الہام ہوئے کیا؟ صاف ظاہر ہے اس کا نام استعمال کر کے صرف کتاب لکھی گئی جبکہ کتاب لکھنے کے پیچھے کوئی اور ہے۔
اب زرا وجوہات کی طرف آئیں کہ آخر عالمی طاقتوں کو کیا تکلیف ہے جو آئی ایس آئی کے خلاف پراپگینڈہ کرتی ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں اپنے اہداف کے حصول کےلیے پراپگینڈہ ایک مضبوط ترین ہتھیار ہوتا ہے۔ جہاں ہدف جتنا اہم ہو وہاں اتنا زیادہ پراپگینڈہ کیا جاتا ہے۔ مثال کےطور پر صدام حسین کی حکومت گرانا اور عراق میں تیل کے کنوؤں پر اپنی مرضی کی کمپنیوں کا قبضہ کروانا امریکہ کا ہدف تھا لہٰذا امریکہ نے عراق میں ویپن آف میس ڈسٹرکشن کا پراپگینڈہ اتنی شدت سے کیا کہ عالمی رائے عراق پر حملے کےلیے نرم ہو گئی۔ نتیجے میں جب امریکہ نے عراق پہ حملہ کیا تو کوئی بھی نہ بولا۔ یہ ایک ہدف کے حصول کےلیے طاقتور پراپگینڈہ کی ایک مثال دی میں نے۔
پاکستان میں امریکہ کے کیا اہداف ہیں یہ ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے۔ ان میں سے اہم ترین ہدف آئی ایس آئی کو کمزور کرنا ہے۔ آئی ایس آئی اور پاک فوج کی طاقت اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد اس ملک کے عام عوام ہیں۔ یوں بھی متفقہ اصول ہے کہ جس ملک کی افواج اور عوام میں دوری ہو وہ زیادہ دیر تک مضبوط بنیادوں پرقائم نہیں رہتے۔ سی آئے اے کے آفیسر مائیکل شیئر (Michael Scheuer) نے آئی ایس آئی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا امریکا کی نظر میں آئی ایس آئی کا یہ قصور ہے کہ وہ پاکستانی مفاد کے خلاف کام نہیں کرتی۔ جب کہ دنیا کی کوئی بھی سیکرٹ ایجنسی اپنے ملک کے خلاف کام نہیں کرتی یہ تو پھر آئی ایس آئی ہے، جو انتہائی قابلِ عزت ادارہ ہے۔ واضح رہے یہ سی آئی اے آفیسر ریٹائرمنٹ کے بعد امریکی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتا ہے اور "امریکہ جہنم کی طرف گامزن" نامی کتاب کا بھی مصنف ہے۔ یعنی خاصہ مستند اور معتبر آدمی ہے۔
تو جناب ایک ایسی ساس جو اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود بہو کا کچھ نہ بگاڑ سکے بالاخراسے کوسنے دے کر گزارہ کرتی ہے۔ امریکہ کی بھی اس بوڑھی ساس کی سی ہے۔ امریکہ کےلیے آئی ایس آئی ایک بے قابو جن کی طرح ہے جو ان کی ساری کوششوں کے باوجود ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ روس افغان جنگ میں آئی ایس آئی سی آئی اے کے ساتھ روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے مقابل کام کر چکی ہے۔ یہ ان دونوں خطرناک ایجنسیوں کے طریقہ واردات کو سامنے رکھ کے دیکھتی اور سمجھتی رہی۔ خود روس والے یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں سی آئی اے کی موجودگی ہمارے لیے مسئلہ نہیں اصل مسئلہ آئی ایس آئی ہے۔ اور سی آئی اے کو یہ مسئلہ تھا کہ آئی ایس آئی روس افغان جنگ میں انہیں بار بار الو بنا کر کئی مشن بالا ہی بالا مکمل کر جاتی ہے۔ اب یہ آئی ایس آئی واقعی ایک بے قابو جن بن چکی ہے جس کو قابو کرنے کےلیے امریکہ طویل عرصے سے گھٹیا حربے آزما رہا ہے۔ مجبوری ہے کہ آئی ایس آئی کے کارناموں سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن یہ یقین رکھیں کہ اس ملک میں امریکی اگر کسی سے متعلق پریشانی میں مبتلا ہیں تو وہ آئی ایس آئی اور پاک فوج ہی ہے۔ اور امریکی پراپگینڈہ کا بہترین جواب یہی ہے کہ جو روس اور چائنہ والے دیتے ہیں یعنی "ہمارے جوتے کی نوک پر"۔
یہی جنرل پاشا جس کے خلاف آج امریکہ پاگل ہو رہا ہے اگر حسین حقانی کی طرح امریکہ سے وفاداری کرتا تو آج امریکہ ان کے بھی گن گا رہا ہوتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنرل پاشا آئی ایس آئی چیف تھے اور امریکہ کےلیے مسئلہ جنرل پاشا نہیں آئی ایس آئی ہے